Wednesday, 15 June 2022

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ باپ اپنے اور اپنے بچوں کے لیے نکل رہے ہیں


پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نان کسٹوڈیل باپ اپنے اور اپنے بچوں لیے نکل رہے ہیں






پاکستان جیسا ملک جہاں مسائل کی بھرمار یے۔ وہاں ایک اہم

  مسئلہ نان کسٹوڈیل والدین کا مسئلہ ہے۔ جس پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔ 



 پاکستان میں اگر میاں بیوی میں علیحدگی ہو جائے تو بچے

عموما" ماں کو دیے جاتے ہیں۔ اور عدالتیں بھی عموما" باپ کو نابالغ بچوں سے گھر کی ملاقات تک نہیں دیتیں۔



 اگر میاں بیوی دونوں نیک، سمجھدار اور خدا ترس ہوں تو کبھی بھی ایک دوسرے سے بچوں کو الگ نہ کریں۔ علیحدگی کے بعد آپس میں ہی بچوں کے ملنے ملانے کے معاملات طے کر لیں۔


لیکن عمومی طو پر ایسا ہوتا نہیں۔ اور خاص کر شہری زندگی میں زیادہ تر بچے ماں کے پاس رہتے ہیں۔


ہمارے ہاں یہ تقریبا" رواج بن گیا ہے کہ اگر خاتون کے پاس بچے ہوں تو وہ اور اس کے گھر والے بچوں کو ان کے سگے باپ سے زبردستی دور رکھنے کو درست فعل سمجھتے ہیں۔ بلکہ وہ اس عمل کو اپنی بیٹی کی زندگی میں آنی والی 'پرابلمز' کا بدلہ تصور کرتے ہیں۔





اکثر ایسے خاندانوں سے جب سوال کیا گیا کہ کیا وہ سگے باپ سے بچے زبردستی دور رکھنے کو گناہ سمجھتے ہیں یا نہیں تو انہوں نے جواب میں یہ بات کہی: "اس باپ نے جس کے ساتھ زیادتی کی وہ بھی کسی کی بیٹی تھی



اب یہ بات غور طلب ہے کہ میاں بیوی کی آپسی لڑائی میں قصوروار جو بھی رہا ہو کیا اس سے ماں باپ کا اپنا رتبہ کم ہو جاتا ہے؟


کیا ماں باپ کے حقوق اور بچوں کے فرائض ختم ہو جاتے ہیں؟


کیا خلع لینے والی ماں کے پیروں تلے جنت نہیں رہتی؟ اور کیا ایسا باپ جنت کا دروازہ نہیں رہتا؟


کیا ہمارا مزہب یہ اجازت دیتا ہے کہ کوئی شخص اپنا بدلہ   نکالنے کے لیے ماں یا باپ سے بچوں کو چھین لے؟اور ان پر ظلم کرے؟


قران مجید کی سورہ لقمان (آیت نمر  15-14) میں کہا گیا ہے کہ والدین مشرک بھی ہوں تب بھی ان سے حسن سلوک کیا جائے


اس معاملے پر ہمارے مفتیان کرام کی رائے بھی موجود ہے۔


مفتی اکمل صاحب' باپ سے اس کے بچوں کو زبردستی دور رکھنے اور اس سے بد زن کرنے کے عمل کے بارے میں فرماتے ہیں


" یہ حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ کسی نے اس کو حلال سمجھ کر کیا تو اسلام سے بھی خارج ہو جائے گا"


مفتی طارق مسعود نے بھی اس معاملے پر اکثر بات کی ہے۔

والد سے بچوں کو دور رکھنے کے بارے میں فرماتے ہیں


"یہ سب ظلم ہے جس پر ان خواتین کو قیامت کے روز  اللہ کے سامنےجواب دینا پڑے گا"


اب عدالتوں کا رویہ تو اس معاملے بہت ہی ظالمانہ ہے۔ باپ کی کوئی سنوائی ہی نہیں۔ نابالغ بچوں کو دیکھنے کے لیے باپ کتنا ہی تڑپ رہا ہو۔ عدالت اس سے فوری ملاقات کروانے کا حکم کبھی صادر نہیں کرتی




سالوں کے کیس کے بعد جب اجازت ملتی ہے تو باپ کو عدالت کے احاطے میں قیدیوں کی طرح بچوں سے ملنے دیا جاتا ہے۔ وہ بھی مہینے میں ایک مرتبہ یا زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ، ایک یا دو گھنٹے کے لیے۔






ان ملاقاتوں میں اکثر بچہ ملاقات کے لیے لایا ہی نہیں جاتا۔ باپ تڑپتا ہی رہ جاتا ہے۔ اس پر بھی عدالت کوئی خاطر خواہ ایکشن نہیں لیتی۔



ان عدالتی ملاقاتوں سے بچوں کے ذہنوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہیں اپنا سگا باپ ایک اجنبی شخص معلوم ہوتا ہے اور اکثر بچے اپنے ہی باپ سے نفرت کرتے ہیں۔ حقارت سے دیکھتے ہیں۔  بچوں کو باپ سے بد زن کر دیا جاتا ہے اور ہمارا نظام خاموش تماشائی بنا یہ ظلم دیکھتا رہتا ہے۔۔



اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے اس "فادرز ڈے" پر اسلام آباد میں ایک آگاہی واک ہو رہی ہے۔ اور پورے پاکستان سے باپ اس میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں۔ 







واک کے لیے آنے والے ایک متاثرہ والد نسیم تنولی کا کہنا ہے کہ وہ 9 سال میں صرف ایک بار اپنی بیٹی سے عدالت میں مل پائیں ہیں اور وہ ایران تفتان بارڈر سے صرف اپنی بیٹی کے لیے اسلام آباد آرہے ہیں







ہماری دعا ہے کہ جب بچے ہو جائیں تو کوئی ماں باپ بھی علیحدہ نہ ہوں اور اگر ایسا کرنا ہی پڑے تو بچوں کے ذریعے اپنا بدلہ نہ نکالیں۔ ایسا کرکے وہ ایک دوسرے سے زیادہ اپنے بچوں پر ظلم کرتے ہیں

No comments:

Post a Comment